میرا آج کا کالم
کالم نگار :انتظار احمد اسد
ڈھلتے سمے کی شام
دریا کنارے،ڈھلتا سورج ،چلتی کشتی اور اکھاڑے میں پہلوانوں کی کؐشتی ،صدیوں پرانی عمارات اور سحر زدہ سی گلیاں ،یہ سب تھا اور ہم تھے _ہم وہ ، جن کی روحیں صدیوں پرے ان لشکروں کو دیکھ رہی تھیں جو سلطان محمود غزنوی ،ظہیر الدین بابر ، شیر شاہ سوری ،جلالدین اکبر، احمد شاہ ابدالی اور دیگر سورماؤں کے زیر سایہ یہاں سے گزرے تھے _ _مغرب کی اذان سے پہلے ہمارے مہمان، فیصل شہزاد چیمہ ،اسسٹنٹ کمشنر کوٹ مومن دریا جہلم کے چلتے پانی کی روانی میں ڈوبے “تزک بابری “سے متعلق ، تاریخ کے اس واقعہ سے ہمیں آشنا کرنے لگے جو اس شہر بھیرہ سے متعلق تھا _ اسی سمے ہم دریا کنارے کھڑے تخیل میں صدیوں پرے، سکندر اعظم اور راجہ پورس کے لشکروں کو اتا جاتا دیکھتے رہے _بہت پہلے راقم کے مہربان ،اسسٹنٹ کمشنر بھلوال مدثرممتاز ہرل بھیرہ کے تاریخی مقامات دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے تھے _اسی حوالے سے گذشتہ شام عزیزم محمد عرفان کی کال آئی کہ ہمارے معززمہمان ، ڈھلتی شام کو بھیرہ میں داخل ہوں گے _ راقم نے بھیرہ، بھلوال روڈ پر عرفان بھائی کے ہمراہ مہمانوں کو ریسیو کیا اور انہیں لئے دریا جہلم کے کنارے پہنچے _ جہاں سرے راہ کھڑا ” بولی والا مندر ” سینکڑوں سال پر محیط امتداد زمانہ کی داستان سناتا نظر آیا _کتنی نسلیں آئی اور چلی گئی، لیکن یہ قدیم مندر اپنی زبوں حالی کے باوجود پوری متانت سے تاریخ انسانیت سے اک عالم کو روشناس کرواتا چلا آرہا ہے _ _مندر کے ساتھ مہر محمد یاسین پہلوان کا اکھاڑا ، فن پہلوانی کو زندہ رکھے ہوئے ہے _ اس اکھاڑے کے تربیت یافتہ پہلوان دنیا میں اپنا سکہ منوا چکے ہیں _ مہمانوں نے لنگوٹ میں پہلوانی کرتے جوانوں سے ملاقات کی _حیدر نامی پہلوان ، سری لنکا ,انڈونیشیااور درجنوں ممالک میں کشتی کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرنے والا اسی اکھاڑے سے تعلق رکھتا ہے _ حیدر پہلوان صدر پرویز مشرف وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بہت سے ممالک کہ سربراہان سے میڈل وصول کر چکا ہے _ راقم نے اسسٹنٹ کمشنر بھیرہ حاکم خان کو کہا تھا کہ اس قومی ہیرو کے نام بھیرہ کی کوئی سڑک یا چوک منسوب کر دیا جائے _ ان کی اچانک ٹرانسفر کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا _
خیر ڈھلتے سمے کی شام ہم دریائے جہلم کے خوبصورت نظارے کے بعد محلہ پراجگان کے “؛عیسی ہاوس ” پہنچے _ریڈ کلف کے ساتھ مملکت خداداد پاکستان کی طرف سے حد بندی کمیشن میں شامل شیخ علاء الدین پراچہ اور ان کے بھائی سابق کمشنر ، ممبر ریونیو بورڈ و پنجاب پبلک سروس کمیشن جی ایم پراچہ اسی عمارت کے مکین تھے _معروف بیوروکریٹ سابق کمشنر لاہور غلام مجتبی پراچہ اور سابق ائی جی سرحد رفعت پاشا کے بزرگوں کی یہ عمارت اپنے بلند و بالا محرابوں اور دریچوں کے ساتھ آج بھی بھیرہ شہر کی شان ہے _ اسی محلے میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے زمانہ کے قاضی القضاء ہندوستان سید احمد میراں محمدی کا مزار ہے _ساتھ ہی شہر کے نیک نام روحانی بزرگ ، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازھری کا قائم کردہ ادارہ دارالعلومحمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف جو اب یونی ورسٹی کا درجہ حاصل کرچکا ہے ،موجود ہے _رات بیت رہی تھی جب ہم معروف محلہ شیخاں والا پہنچے _جہاں قادیانی مذہب کے حوالے سے معروف مقدمہ بہاول پور سننے والے سیشن جج شیخ محمد اکبر کے مکان کو دیکھا گیا _ اس علاقہ میں بہت سی تاریخی عمارات ہیں جن میں تلک راج کی” پیلی کوٹھی ” اپنی وسعت اور بناوٹ کے حوالے سے منفرد ہے _ تاریخی شیخانوالی مسجد سطح زمین سے کئی فٹ بلندی پر تعمیر کی گئی ہے _جو صدیوں پرانی ہے _معروف سیاسی شخصیت شیخ محمد اسلم کمبوہ مرحوم کے گھر کے ساتھ لکڑی کا دروازہ جس پر کی گئی کشیدہ کاری نے مہمانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا اس شہر کے کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے _ اس شہر سے منسوب ایسا ہی ایک دروازہ نیشنل میوزیم لاہور میں بھی موجود ہے _ _تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حاکم خان اسسٹنٹ کمشنر بھیرہ نے اس محلے کو ماڈل سٹریٹ بنانے کے لئے بہت سا کام کروایا تھا _ کچھ عرصہ سیر و سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے احباب بھی یہاں آتے رہے ہیں _ تاریخی “پیلی کوٹھی” جس کو آزادی سے پہلے یہاں کے رئیس تلک راج نے تعمیر کیا تھا ،کی سیر بھی کی گئی _اس عمارت کی زبو حالی اور گراوٹ پکار رہی تھی کہ کبھی یہاں پر پرشکوہ لوگ رہا کرتے تھے _ _تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ان سی ایس پی افسران کے ساتھ کشمیری گیٹ المعروف چٹی پل والے دروازے کے پاس موجود مندر کو دیکھ کر تاریخی دوروازے اور گراؤنڈ گنج منڈی کو دیکھا گیا جہاں برصغیر کے تاریخ ساز لوگ نہرو ،گاندھی اور شورش کاشمیری خطاب کرچکے تھے _ اب ہمارا اگلا پڑاو شیر شاہی مسجدبگویہ تھا جو ایک زمانے میں شمالی پنجاب کے علماء کا ہیڈ کواٹر رہا تھا _یہ مسجد معروف علمی خانوادہ بگویہ کے زیر انتظام صدیوں سے پنجاب بھر میں علم کی روشنی بکھیرتی رہی ہے _اس کے تاریخی مینار ، شاہی مسجد لاہور کی طرز پر قائم تین گنبد، خوبصورت محرابیں ،تالاب ، دل آویز فوارہ وسیع و عریض صحن، خاندان بگویہ کے مزارات دارالعلوم عزیزیہ کی پرکشش عمارت اور مسجد سے ملحق اس شہر کی تاریخ سے مزین میوزیم کو دیکھ کر مہمان مبہوت سے ہو گئے _مہمانوں کو ہزاروں کتب پر مشتمل ، پنجاب یونیورسٹی اور دیال سنگھ کالج ایسی لائبریری دکھائی گئی جہاں
قدیم قلمی نسخے موجود ہیں _مجلس حزب الانصار کا قدیم ترین مجلہ”شمس الاسلام بھی “یہیں سے شائع ہوتا ہے _ جو شمالی پنجاب کا سب سے قدیم ترین مجلہ ہے _صاحبزادہ اصف ابرار بگوی نے میوزیم میں مہمانوں کو خاندان بگویہ کی خدمات کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی _اب رات بیت رہی تھی اور شہر کے اہم تاریخی محلے ابھی مہمان نہیں دیکھ پائے تھے _ جیسے انڈیا کے معروف فلمی اداکار بلراج ساہنی،لکھاری کلپنا ساہنی اور نہرو کے قریبی ساتھی ، ترکی میں انڈیا کے پہلے سفیر چمن لال ساہنی کا “ساہنیاں دا محلہ” ” محلہ خواجگان ” “چوپڑہ دا محلہ “سیٹھیاں والا محلہ _ اور بہت سے اور تاریخی مقامات بھی _ مدثر ممتاز ہرل اسسٹنٹ کمشنر بھلوال اور اسسٹنٹ کمشنر کوٹ مومن فیصل شہزاد چیمہ نے اس شہر اور دریا کے اس پار احمد باد کے قریب پرانے شہر بھیرہ کے ٹیلوں ، جو ہزاروں سال پر محیط تاریخ۔رکھتے ہیں کو دیکھنے کے لئے دوبارہ آنے کا عزم کیا _مہمانوں کو الوداع کرکے راقم سوچتا رہا کاش نوے کی دھائی میں اس شہر کی عمارات کو جو اپنے آرٹ اور بناوٹ کے لحاظ سے پرشکوہ تھیں سنبھال لیا جاتا تو یہ شہر پاکستان کا تہذیبی طور پر اہم ترین حوالہ ہوتا _اس شہر کے ہر محلے میں لکڑی کے خوب صورت کشیدہ دروازوں ،چوکیوں اورجھروکوں پر مشتمل زیادہ تر مکانات جو اب زمین بوس ہوچکے ہیں کبھی اس کی شان تھے _کاش ارباب اقتدار ان بچے کچھے چند آثار کو محفوظ کر لے جو ابھی آخری سانس لے رہے ہیں ورنہ یہ بھی نہیں رہے گے _قارئین کو بتاتا چلوں کہ موجودہ شہر بھیرہ کو 1540 میں شیر شاہ سوری نے اباد کیا تھا اس سے پہلے یہ شہر دریا کے اس پار سالوں قبل مسیح سے قائم وآباد تھا _”بھراڑیاں ” نامی یہ ٹیلے ماہرین اثار قدیمہ کو برسوں سے دعوت دے رہے ہیں کہ ائیں ہم میں ڈھونڈیں اور تلاش کریں ان آثار کو جو ہزاروں سال پر محیط ہیں _مقام مسرت ہے کہ ہمارے آج کے آفیسر تہذیب تاریخ اور تمدن سے دلچسپی رکھتے ہیں _ جو خوش ائند ہے _
