بھیرہ کہ اک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔
گلاب گڑھ مندر دیکھنے میں تو ایک چھوٹی سی خستہ حال سی متروک عمارت ہے، جس کے اندر جالے لگے ہوئے ہیں ، جہاں جانور باندھے جاتے ہیں ۔، جس کی دیواروں پر اپلے یا چاپڑیاں لگائی جاتی ہیں ۔مگر اس چھوٹی سی عمارت سے ہماری تاریخ کا انتہائی خوبصورت پہلو جڑا ہوا ہے ۔۔جی ہاں۔۔اس مندر سے روچی رام ساہنی اور ان کے ہونہار فرزند بیر بل ساہنی کی یادیں جڑی ہیں۔۔۔
پاکستانوں کیلیے مکمل طور پر گمنام یہ نام تھے کون۔۔۔
آئیے تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں۔۔۔یہ چھوٹا سا مندر متحدہ ہندوستان کے سب سے پہلے سائنسدان اور واحد میٹیریالوجسٹ روچی رام ساہنی نے اپنی والدہ گلاب دیوی کے نام پر تعمیر کروایا تھا ۔۔سن تعمیر کے بارے کوئی مستند معلومات ابھی تک نہیں مل سکیں۔۔۔اہلیان علاقہ اور نئے مکین تو اس بات سے بھی غافل ہیں کہ یہ روچی رام ساہنی کا مندر ہے۔۔۔روچی رام ساہنی متحدہ ہندوستان کے اس درجہ کے راہنما تھے کہ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم نہ صرف ان کے مندر کو حفاظت کرتے بلکہ ان کا گھر بھی بطور میوزیم سنبھالتے۔۔۔
مگر ہم اس ورثے کی قدر نہ کر سکے ۔تقسین ہند کے بعد ہم نے ہیروز بھی الگ الگ کر لیے ۔وہ روچی رام جو مغربی پنجاب کا ایک ہیرو تھا، جس کی ساری زندگی پنجاب کے پاکستانی حصے میں گزری تھی، کو بھارتی دانشور اور سائنسدان کہہ کر نہ صرف فراموش کر دیا گیا بلکہ ان کی رہائش گاہ بھی مہاجرین کے حوالے کر کے اس کا نشان تک مٹا دیا گیا۔۔ان کا بنایا ہوا مندر اٹھتر برسوں سے جانے والوں کی راہ تک رہا ہے۔۔۔
بڑے پیمانے پہ انتقال آبادی غیر فطری ہوتی ہے ۔۔بھلے مذہب کی بنیاد پہ ہی کیوں نہ ہو۔۔تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں نے بے شمار مصائب کا سامنا کیا۔۔اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ لوگ پاکستان آ کر خود کو ایڈجسٹ نہیں کر سکے۔۔۔اس کے علاؤہ جو تاریخی ورثہ ان کے حوالے کیا گیا تھا اس کو برباد کر دیا چہ جائیکہ اس کی حفاظت کرتے۔۔۔۔تاریخی عمارات کے ساتھ ان کا سلوک دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔
تقسیم کے نتیجے میں ویران ہونے والے مندروں پر قبضہ کر کے ان میں نا صرف جانور باندھے جا رہے ہیں اور دیواوٹپر گوبر کے اپلے لگائے جا رہے ہیں بلکہ کئی ایک مندر تو ہوس میں صفحہ ہستی سے بھی حرف غلط کی طرح مٹا دئیے گئے ہیں۔۔۔ماڑیاں اور شاندار حویلیاں یا تو کھنڈر بنا دی گئی ہیں یا گرا دی گئی ہیں ۔۔
اکثر منادر انتہائی چھوٹے ہیں۔۔ایک مندر بمشکل ایک چوتھائی مرلے پر محیط ہوگا ۔گو احاطہ زیادہ ہے۔۔۔جس پر پہلے قبضہ کیا جاتا ہے اور احاطے میں جانور باندھے جاتے ہیں ۔
اور پھر اس ایک چوتھائی مرلے کی عمارت کو بھی بخشا نہیں جاتا۔۔۔یہ اتنا چھوٹی عمارتیں ہیں کہ ان میں ایک بڑا جانور بھی نہیں باندھا جا سکتا ۔مگر بے حس لوگ ان میں چھوٹے جانور جیسے کٹے اچھے گدھے بکرے باندھ دیتے ہیں ۔دیواروں پہ گوبر کے اپلے لگا دیتے ہیں ۔
ساری بات سوچ کی ہے ۔جب بیس بڑے جانور کہیں اور باندھے جا سکتے ہیں تو ایک چھوٹا جانور بھی باندھا جا سکتا ہے ۔۔
بلکہ ا نھیں تو یہ چاہیے تھا کہ اس مندر کے اطراف حد بندی کر دیتے۔۔۔تا کہ اس کا تقدس برقرار رہتا ۔
قدر پھلاں دی بلبل جانے جیہڑی صاف دماغاں والی
قدر پھلاں دی گرجھ کی جانے جیہڑی مردے کھاؤن والی ۔۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے مذہب کے نام پہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کے بدلے جو لوگ لیے ان کے پاس دکھانے کو مذہب کے کھوکھلے پن کے علاؤہ کچھ بھی نہیں تھا ۔۔مذہب بھی پورا نہیں تھا ۔۔بہت سی ایسی عادات اپنے ساتھ لائے جن سے اس علاقے کے باسی شناسا نہ تھے۔
جیسے پان ان لوگوں کے ساتھ پنجاب آیا ۔۔اپلے چاپڑیاں تھاپیاں یہ لوگ لائے جو انھوں نے ہر عمارت پہ لگا دیں۔۔گراں فروشی ان لوگوں کے ساتھ آئی اور ہمارے سادہ لوحوں نے بھی ان سے سیکھی ۔۔۔
عبادت گاہوں کا تقدس تمام مذاہب کے پیرو کاروں پر لازم ہے بھلے وہ جس مذہب کی بھی ہوں۔۔۔
کیونکہ عبادت گاہوں سے انسانوں کے جذبات جڑے ہوتے ہیں۔
اور دل دکھانا تو ہمارے مذہب میں ویسے ہی ناپسندیدہ ہے ۔
ویکیپیڈیا کے مطابق روچی رام ساہنی کی پیدائش کا سال 1863 ہے ۔۔
روچی رام ساہنی اپنے والد کرم چند کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سے بھیرہ منتقل ہوئے تھے۔ روچی رام ساہنی برصغیر کے پہلے چند میٹریالوجسٹس میں سے ایک تھے انھوں نے نیل بوہر نوبل انعام یافتہ بابائے نیوکلیر کیمسٹری, ردھرفورڈ اور آئن سٹائن نوبل انعام یافتہ فزکس کے ساتھ کام کیا ۔ان کے نام اور تصویر کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا نے ڈاک ٹکٹ جاری کر رکھا ہے۔۔ اور وہ 1886 تا1918 تک لاہور کالج میں فزکس کے سینئر پروفیسر رہے اور بعد میں اس کالج کے پرنسپل بھی بنے۔۔۔پھر اٹامک ماس پر ریسرچ کے لئے جرمنی چلے گے۔
روچی رام ساہنی دیال سنگھ کالج اور لائبریری کے فاونڈر ممبر بھی تھے ۔اس کے علاؤہ ٹریبیون اخبار کے بانی ارکان میں بھی شامل تھے۔۔
روچی رام ساہنی برصغیر کے پہلے پیلیونٹولوجسٹ بیربل ساہنی کے والد تھے۔ بیربل انٹرنیشنل بوٹانیکل کانگرس کے صدر کے ساتھ ساتھ نیشنل اکیڈمی برائے سائنس انڈیا کے بھی صدر رہے۔ 1946 کو بیربل ساہنی کے نام پر بیربل ساہنی انسٹیٹیوٹ آف پیلیونٹولوجی لکھنو قائم ہوا اس کے سامنے بیربل کا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ بیربل کے دیگر بھائی بھی اعلی تعلیم یافتہ تھے ۔ روچی رام ساہنی کے دوسرے فرزند مالک راج ساہنی پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ میں جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے بانی اور پہلے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے ۔۔ان کا ایک اور بیٹا ڈاکٹر اور ایک باریٹ لا تھا ۔۔
روچی رام خواتین کی تعلیم کے بہت بڑے پرچارک تھے۔۔ ان کی بیٹی لیلاوتی پنجاب یونیورسٹی لاہور کی پہلی خاتون گریجویٹ تھیں۔۔۔
روچی رام اور ان کے فرزند بیربل بھیرہ اور پنجاب کے ہیرو تھے ۔۔جنھیں گنگا رام کی طرح اس وجہ سے نہ اپنایا گیا کیونکہ دو قومی نظریہ کے مطابق وہ ہماری قوم کا حصہ نہ تھے ۔۔۔
اس مندر اور روچی رام ساہنی کی زندگی پر کتاب لکھی جاچکی ہے
