شیر شاہی مسجد بھیرہ ضلع سرگودھ
شیر شاہی مسجد بھیرہ ضلع سرگودھا۔ اضافی تعمیرات (1) شیر شاہی مسجد 1541ءمین ایک روایت کے مطابق تعمیر ہوئی جو تین گنبد پر مشتمل عمارت تھی ۔ تب سے 1840ء تک متولی ، خطیب اور نظامت کی کون کون خدمت کرتا رہا ، کوئی ریکارڈ نہیں تاہم بھیرہ کے ایک علمی خاندان مفتی حضرات کا تذکرہ ملتا ہے ۔ علماے بگویہ نے شاہی عالمگیر مسجد لاہور کی خطابت کے ساتھ ساتھ اس مسجد کی باضابطہ خدمات سنبھالیں۔ اور تعمیر ومرمت کا سلسلہ شروع کیا۔ صدر دروازہ جسے عرف عام میں ڈیوڑھی کہا جاتا ہے 1927ء میں مولا محمد یحیی صاحب بگوی رح نے اس کی تعمیر کا آغاز کیا ۔جو بوجوہ سست روی اور تاخیر کی نظر رہا ۔فنڈز کی کمی شاید آڑے آتی رہی ۔اس مسجد اور مدرسہ کا تمام نظام شہر اور علاقہ کے مخلص معاونین کا مرھون منت ہے جن کے تعاون اور اعتماد سے یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ 1937ء میں مولانا ظہور احمد بگوی رح نے صدر دروازہ کی تکمیل کی کوشش فرمائی اور کچھ تعمیرات پھر بھی رہ گئیں۔ 1994ء میں اللہ رب الکریم کے فضل وکرم سے مینار اور فرنٹ بناے گے ،تمام عمارت کی مرمت کرائی گئی ۔ مٹی اینٹ کی اس سادہ عمارت میں دفاتر حزب الانصار، ریسرچ سنٹر و میوزیم، استقبالیہ اور دوسری منزل پر رہائشی حصہ ہے ۔ چھتیں لکڑی کی ہیں، ایک چھت خطرناک حد تک بوسیدہ ہونے کی وجہ سے تبدیل کی گئی ہے ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ (جاری)
Zahid Mumtaz












Sher Shah Suri Jama Mosque ( 1540/41 AD), Bhera, district Sargodha, Pakistan. Some information about additional construction, by Sahibzada Abrar Ahmed Bugvi. Part 2, To be continued … . Information and pictures are given on the website, bhera.org, under the Category, Mosques of Bhera. شیر شاہی . مسجد بھیرہ ضلع سرگودھ. Part 2, Zahid Mumtaz
[10:51 am, 22/07/2024] Zahid Mumtaz: Dear Kamran Lashari Sahib ,.
شیر شاہ سوری مسجد بھیرہ۔ اضافی تعمیرات (2) بھیرہ ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے ۔اس میں قائم مسلمانوں کی مساجد بھی پرانی ہیں۔اور دیگر مذاہب کے معابد بھی۔ جامع مسجد بھیرہ کے بارے ریکارڈ بھی خاموش ہے محض نام جامع مسجد مقبوضہ اہل اسلام درج ہے ۔ یہ سہ دری بلڈنگ مغل فن آرٹ کا نمونہ ہے ۔ اس مسجد پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس کی تاریخ بھیرہ کی تاریخ سے جڑی ہے ۔ جامع مسجد کی مرکزی عمارت کے علاوہ وقت کی ضرورت اور موجود وسائل کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ۔اس وقت موجودہ اضافی عمارات کی تعمیر بگویہ علماء کرام کی مساعی کا نتیجہ ہے ۔الحمد للہ علی ذالک۔ تعلیم و تدریس اور اصلاح نفس کے عملی کام پر ان کی توجہ رہی۔ مدرسہ دارالعلوم عزیزیہ کی عمارت مولانا ظہور احمد بگوی رح بانی امیر مجلس حزب الانصار کی نگرانی میں تعمیر ہوئی ۔جہاں اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام تعلیم ،تدریس اور تربیت دیتے رہے اور ان سے ہزاروں طلباء فیض یاب ہوکر برصغیر اور افغانستان میں علمی خدمات سرانجام دہیں۔ مدرسہ کی عمارت 1936ء میں تعمیر ہوئی جبکہ دارالحدیث (22×56)اور دارالقران(28×44)فٹ مولانا عبد العزیز بگوی رح (1901ء) مولانا پیر محمد ذاکر بگوی سیالوی رح کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔ مدرسہ و مسجد کی عمارات اور دیگر خدمات مخلص احباب کے مالی تعاون ،دلی اعتماد اور دعا سے ممکن ہے ۔مگر 1936ء میں خصوصی مالی تعاون جناب خواجہ محمد ظہور مہتہ مرحوم ،شیخ فضل الحق پراچہ مرحوم، راجہ غلام غوث مرحوم ریئس چک 11 اور نواب محمد حیات قریشی مرحوم کا قابل ذکر حصہ ہے ۔دارالاقامہ کا 90 فٹ طویل برآمدہ 1950ءمیں مولانا افتخار احمد بگوی نے تعمیر کرایا ۔ ان اضافی تعمیرات سے علمی ضرورت پوری ہوئی اور مسجد کے حسن میں بھی اضافہ ہوا ۔ان شاءاللہ بھیرہ کی تاریخ میں ان بزرگوں کی (خدمات اور مخلصانہ جذبات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ۔ صاحبزادہ ابرار احمد بگوی
To be continued …











Sher Shah Suri Jama Mosque ( 1540/41 AD), Bhera, district Sargodha, Pakistan. Some information about additional construction, by Sahibzada Abrar Ahmed Bugvi. Part 3, To be continued … . Information and pictures are given on the website, bhera.org, under the Category, Mosques of Bhera. شیر شاہی. مسجد بھیرہ ضلع سرگودھ. Part3 . Zahid Mumtaz
شیر شاہ سوری مسجد بھیرہ ضلع سرگودھا۔ اضافی تعمیرات ( 3)
مسجد ایک روایت کے مطابق 1541ءمین تعمیر ہوئی۔ جو تین گنبدوں پر مشتمل تھی۔ اتنے طویل عرصہ میں اس کی مرمت لازما ہوئی ہو گی، اور ضرورت کے تحت اضافہ بھی ہوتا رہا ہوگا ۔موجودہ تینوں گنبد اپنی اپنی ساخت میں الگ ہیں اور مسجد کے اندر پیمائش قدرے مختلف ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 45 کنال ہے ۔مسجد کا ایوان 111×117 مربع فٹ اور صحن 261×273 مربع فٹ ہے ۔ایک اندازہ کے مطابق بارہ ہزار افراد ایک وقت مین نماز ادا کر سکتے ہین ۔۔مسجد اور مدرسہ لازم ملزوم سمجھے جاتے رہے ہیں۔یقینا اس شاہی مسجد میں بھی مدرسہ ہوگا تاآنکہ 1860ء میں بگوی برادران نے تعلیم و تدریس کا آغاز کیا ۔ کچھ اضافی تعمیرات ہوئیں۔ دو بلند مینار 1903ء اور 1905ءمولانا پیر عبدالعزیز بگوی رح کے دور میں بناے گے۔ان دونوں کے کلس انتہائی بوسیدہ ہوگے،چنانچہ1958ء مین کلس کی مرمت دوبارہ مرمت ہوئی اور سٹیل کے کلس نصب کئے گے ۔ ۔ صحن مسجد میں حوض درست ہوا ۔قبل ازیں وضو کیلئے مٹی کے کوزے استعمال ہوتے تھے ۔بانی امیر مجلس حزب الانصار نے وضوگاہ تعمیر کی اور لوہے کی چادروں کی چھت ڈالی گئی۔مولانا افتخار احمد بگوی رح نے1960ء میں لینٹر ڈالویا۔ مسجد کے جنوب میں ایک طویل برآمدہ 2005ء میں بنایا گیا اور خانقاہ بگویہ کی عمارت کی مرمت ہوئی۔ 1992ء کے زبردست سیلاب سے بلڈنگ کو شدید نقصان پہنچا۔جناب منصور الزمان صدیقی مرحوم بانی چیرمین صدیقی ٹرسٹ کراچی اور انکے رفقاء کی دلچسپی سے وسیع کام ہوا ۔ درودیوار اور چھتوں کی مرمت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ بھیرہ سے خواجگان فیملی کی ایک شاخ حکیم فیملی ہے ۔ان کے اجداد نے زرعی زمین کی آمدن تعمیر و مرمت کیلئے مختص کر رکھی ہے ۔ مرحوم حکیم کرم داد رح کی نیکی کی یہ سوچ مسجد کیلئے مفید رہی۔ یہ تمام اخراجات حکیم فیملی کے متولی اپنی صوابدید سے کرتے اے ہیں۔مسجد انتظامیہ کا آمد و خرچ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ماضی میں مختار احمد، حکیم عبداللہ، اور حکیم عبدالغنی مرحومین متولی رہے۔ مسجد و مدرسہ کا تعلیمی ، تبلیغی اور تعمیر و مرمت کا کام شروع سے علاقہ و شہر بھیرہ کے مخیر حضرات کے تعاون سے ہے، جو مختلف گھرانوں، خاندان اور برادیون سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۔بگوی علماء کرام نے مسجد و مدرسہ کی خدمت کو نیکی سمجھا اور اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن انجام دیا ،الحمد للہ آج بھی مسجد ومدرسہ کے معاونین کا اعتماد اور دعا حاصل ہے۔ یہ اضافی تعمیرات کی تاریخ و تفصیل سے ان معاونین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔ جو اکثر زائرین نظر انداز کر دیتے ہیں





