Entry Darwazas of Historic Town — Bhera, by Sahibzada Abrar Ahmad Bugvi, in Urdu, along with pictures. See on the website, bhera.org, under the category, “Gates of Bhera”. The link is given below:
ریاست بھیرہ قبل از حضرت مسیح علیہ السلام آباد تھی، کابل اور دیگر علاقوں سے آنے والے لشکر اسہی شہر سے ہو کر گزرتا تھے کیونکہ دہلی کے لیئے قریبی اور خوراک ،مال واسباب کے لحاظ سے خوشحال اور خود کفیل تھا ۔حملہ آور یہی کچھ چاہتے تھے۔ ،بھیرہ شہر وقت کے ہاتھوں بدلتا رہا لیکن رہا اپنی جگہ ،جہاں آج ہے ۔ انڈے کی ماند یہ شہر بیضوی شکل میں ہے ۔ شہر کی حفاظت کیلئے ایک فصیل تھی جس میں پنجاب کے معروف تجارتی شہروں کی سمت آٹھ دروازے تھے ۔ قدامت اور سکھا شاہی میں یہ گرتے چلے گے ۔ان کی تعمیر نو اس وقت کے ضلع شاہ پور کے ڈپٹی کمشنر Capt.W.G.Davies نے 1866 سے 1874ء میں انہی قدیم نقوش پر کرائی۔ چند سال قبل بلدیہ بھیرہ میں براجمان سیاسی شہزادوں نے اپنے ذوق سے مرمت کرائی ۔چونکہ وطن عزیز میں اسلامی ٹچ دئیے بغیر نہ چورن بکتا ہے نہ دال، اب دو دروازے مسلمان نظر آتے ہیں جبکہ یہ ثقافتی ،تہذیبی اور تاریخی دروازے وحدت اور ہم آہنگی شہر کی نمائندگی کرتے تھے۔۔۔(فوٹوز بشکریہ جناب کرنل (ر) زاہد ممتاز شیخ)
Comment on Sahibzada Abrar Ahmad Bugvi’s write-up on Darwazaz of Bhera*
ماشاء اللہ ۔ بھیرہ اور بھیرہ کا ایک ایک دروازہ اور محلہ۔ جات ,سکول ، ریلوے سٹیشن ، آپ والی مسجد ، حضرت مولوی نور الدین صاحب کا گھر (احمدیہ مسجد) تو دل و دماغ پر چھائے رہتے ہیں ۔ کئی دوست کلاس فیلو یاد آتے ہیں ۔ کئی خدا کو پیارے ہو چکے ہیں ۔ ایک کلاس فیلو اصغر صاحب تھے جو لالو والے دروازے کے اندر مہندی کا کاروبار کرتے تھے وہ بھی سنا ہے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں آپ کے خاندان کے ایک فرد میرے بھائی احمد سعید اختر کے کلاس فیلو تھے ۔ احمدیہ مسجد نور کے قریب ہی رہتے تھے انہوں نے 1958 میں میٹرک کیا ہوگا ۔میں نے 1960 میں کیا ۔ ایک دوست ملک مسعود اختر تھے جنہوں نے میرے ساتھ میٹرک کیا اور پیر کرم شاہ صاحب کے منع کرنے کے باوجود ربوہ داخل ہوا پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی فزکس کر کے آرمی میں کمیشن لیا اور کرنل ریٹائر ہو کر راولپنڈی set ہو گیا اس سے 2016 تک رابطہ رہا ہے ۔ علامہ ندیر ہم سے ایک سال پیچھے تھے ۔











