After seeing the pictures of the abandoned Bhera railway station and the cloth ceiling fan pulled by a rope, Dr Abdul Waheed Qureshi ( Homoeopathic), from Lahore has shared his memoirs of Bhera in two parts. See on the website, bhera.org, under the Category, Miscellaneous & Bhera Railway Station. For information. Zahid Mumtaz
قارئین کرام ! میرا بھی کچھ جذباتی لگاؤ بھیرہ ضلع سرگودھا کے ساتھ ہے ۔ بہت سی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں ۔ خصوصاً بھیرہ کا ریلوے اسٹیشن اور جامعہ مسجد شیر شاہ سوری ۔۔ جس کے موجودہ متولی مفتی شہر صاحبزادہ مولانا ابرار احمد بگوی صاحب ہیں ۔۔ جو کہ بھیرہ کی تاریخ کے امین بھی ہیں ۔ قدیم تاریخی قصبہ بھیرہ کے حوالے سے کچھ تحریری و تصویری یادیں میری نظر سے گزریں ۔۔ تو مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ، بھیرہ سے لاہور اور لاہور سے بھیرہ کا سفر … میری ان یادوں کو زندہ کرنے کا سہرا “ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل زاہد ممتاز صاحب” کے سر ہے ۔۔۔ جو گاہے بگاہے سوشل میڈیا پر بھیرہ شہر اور کلچر کی تاریخ کے حوالے سے تحریری و دستاویزی مواد شیئر کرتے رہتے ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ! بچپن میں ہم جب بہن بھائی بھیرہ اپنے چہیتے خالو مولانا حکیم صاحبزادہ برکات احمد بگوی صاحب (مرحوم) کے گھر سالانہ چھٹیاں گزارنے جایا کرتے تھے ، تو بازار سے گزرتے ہوئے ایک زرگر کی دکان کی چھت پر نصب لکڑی کے تخت اور کپڑے کا بنا ہوا پنکھا بہت کشش رکھتا تھا ۔۔ گرمیوں کی دوپہر میں جب سب سوئے ہوتے تو میں چپکے سے بازار نکل جاتا اور اسی زرگر کی دکان پر پہنچ جاتا ، وہ بزرگ تو سوئے ہوتے اور اس پنکھے کی ڈوری ان کے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ بندھی ہوتی ، ان کے پاؤں کی حرکت سے پنکھا چلتا رہتا اور انہیں ہوا دیتا رہتا ۔۔۔ اور وہ دنیا مافیہ سے بے خبر مزے سے سوئے رہتے ہیں ۔۔۔ یہی چیز میرے چھوٹے سے ذہن کے لیے معمہ بنی رہتی ۔۔ اس گتھی کو حل کرنے کے لیے میں شرارتاً کوئی چھوٹا سا پتھر ان زرگر کی طرف اچھال دیتا مبادہ وہ جاگ جائیں ۔۔۔ وہ تو اپنی مست نیند میں سوئے ہوتے ۔۔ پنکھے اور زرگر صاحب کے پاؤں کے مکینزم کا معمہ میری شعوری عمر تک حل نہ ہو سکا ۔۔
: حصہ دوم ۔۔۔ قارئین کرام ! میں نے اپنی سابقہ تحریر میں اپنے بچپن کے حوالے سے کپڑے سے بنے ایک پنکھے کا ذکر کیا ، وہیں ہھیرہ کے قدیم ریلوے اسٹیشن کا ذکر بھی بہت ضروری ہے ۔۔ ہمارے بچپن میں لاہور سے بھیرہ اور بھیرہ سے لاہور کا سفر واحد ذریعہ “ریلوے ٹرین” ہی ہوا کرتا تھا ۔ بھیرہ کے اُس لمبے سفر میں تین ٹرینیں تبدیل کرنا پڑتی تھی ۔۔ لاہور سے لالہ موسیٰ ، لالہ موسیٰ سے ملکوال اور ملکوال سے بھیرہ ۔۔ ہم بچے جب بھیرہ پہنچتے تو سفر کی تھکان سے نڈھال ہو جاتے ۔۔ پھر وقت کی ترقی نے اپنی چال تبدیل کر لی ۔۔۔ اور لاہور سے بھیرہ کا سفر جہلم ، چنیوٹ اور بھلوال سے بھیرہ ٹریک پر آگیا ۔۔
اور پھر ہم لاہوری بچوں کیلیے بھیرہ کا ریلوے اسٹیشن ایک سیرگاہ کی حیثیت اختیار کرگیا ۔۔ ھمارے خالہ زاد بھائی صاحبزادہ حسنات احمد بگوی جو حکیم صاحبزادہ برکات احمد بگوی صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں ، ہم سب لاہوری بچوں کو لے کر سیر کرانے ریلوے اسٹیشن لےجایا کرتے ۔۔ بعض اوقات ٹرین کے آنے کا وقت ہوتا تو ہماری موجیں ہوجاتی ۔۔ اب ہم اس انتظار میں رہتے کہ ٹرین کا انجن کب ریل کے ڈبوں سے علیحدہ ہوگا اور turning mechanism پر پہنچے گا اور پھر ریلوے کے مخصوص مزدور اسے گھمائیں گے ۔۔ یاد رہے ! جیسے ہی ریلوے انجن ٹرننگ مکینزم پر پہنچتا ہم بچے بھاگ کر اس پر سوار ہو جاتے ۔۔ برادرم حسنات بگوی بھائی شور مچاتے رہ جاتے ایسا نہیں کرو چوٹ لگ جائے گی ۔۔ ہم لاہوری بچے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر بھی اس ٹریک پر سوار ہو جاتے اور اسے گھمانے کے عمل سے لطف اندوز ہوتے ۔۔۔ میں تو اس مکینزم کو گھمانے والے مزدوروں کے ساتھ زور لگانے کے لیے بھی شامل ہو جاتا ۔۔ گھر پہنچنے پر میری والدہ صاحبہ خالہ صاحبہ اور خالو جان حکیم برکات احمد بی صاحب کو شکایت لگا دی جاتی ۔۔ بس ہونا کیا تھا ، معمولی سی پیار بھری سرزنش ہوتی اور بس ۔۔ آج ” ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل زاہد ممتاز صاحب” کی تصویریں پوسٹ دیکھی تو مجھے اپنے بچپن کے وہ تمام مناظر یاد آ گئے ۔۔
I am deeply indebted to “Sir Zahid Mumtaz” for sharing my childhood memories … 💐💐💐 کمپوزنگ کی غلطیوں کیلیے مغذرت ۔۔ اگر غیر ارادہ تاً ہو گئی ہوں تو ۔۔