Chika: Memories Suspended by a Rope. See on the website, bhera.org, under the category miscellaneous. Ensya Mumtaz
In Bhera’s past, the Chika, a metal wire or strip basket suspended by a rope, played a vital role in daily life. Women living in multi-story houses utilized Chikas to purchase essentials, such as fresh vegetables, from hawkers without leaving their homes. From jharokas (balconies), women would negotiate prices with hawkers through voice commands. Once agreed, they’d lower the Chika, allowing the hawker to fill it with the desired items. The Chika was then pulled up, and payment was made by lowering it again to the agreed amount. Chikas were primarily used to keep the vegetables and fruits fresh and to quickly dry up washed utensils.
Although Chikas are no longer common in Bhera, their memory lives on. Through the pictures below, we can revive the memories of Chikas and appreciate their significance in Bhera’s cultural heritage.
Enaya Mumtaz
Comment by Shahibzada Abrar Ahmad Bugvi on Chika
“چھکا ” لوہے کے تاروں سے بنا گھونسلہ نما پنجرہ کو چھکا کہا جاتا ہے ۔ بھیرہ میں دو منزلہ سہ منزلہ مکانات کے مکین چھکا کی اہمیت سے آگاہ اور سہولت سے آرام کی زندگی گزارتے۔ پہلی یا دوسری منزل کی کھڑکی سے لٹکتا ہوا یہ چھکا ایک رسی /ڈوری کی مدد سے ہوا میں میں لہراتا گھومتا گلی میں خوشیاں اور آسانیاں لاتا ۔ کھڑکی میں کھڑی خواتین رسی ہاتھوں میں پکڑے سبزی/سودا سلف خرید کرتی۔ بھاوتاو ہوتا ،اور چھکا کے ذریعہ پیسے نیچے بھیجے جاتے۔ ٹوکری میں سودا لئے مرد /خواتین اکثر فروختگی کیلئے سامان سر پر رکھے آوازیں لگاتے اتے۔ سبزیاں زیادہ تر قریبی گاؤں کی خواتین لاتی تھیں۔ پہلی یا دوسری منزل سے نیچے آنا کسی وجہ سے مشکل ہوتا تو یہ چھکا مشکل آسان کو دیتا ۔ چھکا لٹکایا، سودا اوپر کھینچ لیا جاتا ۔ چھکا ہی میں پیسے رکھ دیئے ،یوں اعتماد کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہتا۔ پرانی روایات ختم ہوتی جارہی ہیں اور ثقافت کے یہ سادہ ،خوبصورت پہلو ہم بھولتے جا رہے ہیں۔شاید ہی اب بھیرہ میں چھکا کا استعمال ہوتا ہو اب مارکیٹ، پلازہ اورa بازار جانا ہی ثقافت ہے ،جہاں باہمی رواداری ،دوستی اور ہمدردی کی کوئی اہمیت نہیں۔ تاریخی شہر اپنی ثقافتی خوبیوں اور خوبصورتی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔(صاحبزادہ ابرار احمد بگوی )