The incident was narrated and penned by Dr Rashid Nisar ( 1927 – 2013 ). He visited Bhera frequently in the 1940s , as his sister was married there. His write – ups are included on the website bhera.org , as under :
1 .Articles on Bhera in Urdu: Dr Rashid Nasir’s article, “Bhera Jo Aak Sahar Tha”, was published in his book, “Aakh Jahpakta Lamha “. PP 55 -69
2 .People of Bhera. Rememberances of Bhera of Dr Rashid Nisar ( verbally narrated by him and recorded by me in his own words )
3 .Dr Rashid Nisar (1927- 2013), son of Malik Imdad Ali, was from Rawalpindi. He saw Bhera in his youth before and after Independence, as his sister was married there.
For more about Dr. Rashid Nisar, see Wikipedia.
ظالموں کا اصول ( Zalamo Ka Asool by Dr Rashid Nisar )
ظالموں کا اصول*
بھیرہ کے مرکزی بازار میں ایک کٹڑہ جسکا مالک ایک ہندو سادھو تھا۔ وہ روزانہ بازار میں آتا اور کچھ دیر بعد واپس گھر چلا جاتا۔ اس کا گھر کڑے کے سامنے اونچی گلی میں تھا۔ میں اسکا پیچھا کرتے کرتے اس کے استھان تک چلا جاتا ۔ مجھے بہانے کی ہیئت کذائی اور رنگ روپ اچھا لگتا ۔
بابا کھڑاؤں پہنتا اور ہلکے گرے رنگ کے کپڑے پہنتا جس سے وہ مکمل سادھو دکھائی دیتا۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد اور سفید تھا
میں اس رنگ کو آریائی تصور کرتا تھا اس لیے میں اس کے کمرے میں جا کر دروازے کے پٹ کے پیچھے چھپ کر بیٹھ جاتا تھا۔ میں اس سے ہندوازم نیاس اور جوگ کے بارے میں پوچھتا ۔ وہ مجھے بہت سی باتیں بتا کر کہتا ہند و ازم پرانا اور اسلام نیا مذہب ہے۔ اس میں سنیاس اور جوگ نہیں ہے اور اگر کچھ تو اس پر ہند وازم کی پر چھا ئیں دیکھی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے بعد بابا اسم امکان میں رہا اس کی دیکھ بھال ایک پجاری کرتا اسکا رنگ سیاہ دراڑوں جیسا تھا پاکستان ابھی بن رہا تھا ہر
جگہ سامراج نے آگ اور خون کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ میں اس سے بے خبر بابے کے استھان چلا گیا۔ وہاں بیجاری فرش پر سورہا تھا میں دروازے کے پٹ کے پیچھے بیٹھ گیا میں سوچ رہا تھا بابا کہاں ہے وہ خیریت سے ہے اور پجاری تم کیسے ہو۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ دروازے پر کھسر پھسر کی آواز میں آئیں۔ میں نے ایک روزن سے دیکھا دو شخص کالے کپڑے پہنے ہاتھ میں خنجر لئے کھڑے تھے۔ میرا تو دم گھٹ گیا
میں نے سوچا آج بے موت مرے گا۔ میں تھر تھر کانپ رہا تھا کہ ایک کالے لباس والے نے کہا ہم اس کو نہیں مار سکتے ۔
دوسرا بولا ۔ جس کام کیلئے آئے ہیں اُسے پورا ہونا چاہیے۔
پہلے شخص نے کہا دیکھتے نہیں ۔ اس کے کان چھدے ہوئے ہیں یہ تو جو گی ہے ہم اسے کیسے مار سکتے ہیں یہ کہ کر وہ تیزی سے واپس چلے گئے۔ میرا سانس درست نہیں ہورہا تھا۔ پجاری بے خبر سور ہا تھا میں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے گھر کا راستہ لیا۔ میں سوچتا
رہا ڈاکوؤں کے پاس اصول سنہری تھے۔ یہ عالم انسانیت میں کیسا تضاد ہے ہمارے پاس کوئی اصول نہیں ۔
Zahid Mumtaz